پاکستان میں مہنگائی کا حل: آمدنی میں اضافہ یا قیمتوں میں کمی
اگر پاکستان میں آپ کو پیپسی کی ایک بوتل 25 سینٹ میں ملتی ہے، تو ممکن ہے کہ یہی بوتل کسی قریب کے ملک میں آپ کو ایک ڈالر یعنی 100 سینٹ میں خریدنی پڑے۔ عالمی قیمتوں کے موازنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان دنیا کے سب سے سستے ممالک میں شامل ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت سی چیزیں بیرونِ ملک سے درآمد ہوتی ہیں، اس لیے قیمتیں آہستہ آہستہ عالمی معیار کی جانب بڑھتی رہیں گی، اور مہنگائی کو روکنا مشکل ہوگا۔
اگر پاکستان میں قیمتیں عالمی سطح کے مقابلے میں کم ہیں، تو پھر عوام کیوں پریشان ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی اوسط آمدنی بین الاقوامی سطح سے کافی کم ہے، جس کی وجہ سے اشیاء سستی ہونے کے باوجود عام آدمی کی خریداری کی طاقت کم ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ صرف مہنگائی کم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں پہلے ہی بہت سی اشیاء کی قیمتیں عالمی اوسط سے کم ہیں۔ اگر ان قیمتوں کو مزید کم بھی کر دیا جائے تو مقامی اور عالمی قیمتوں میں فرق مزید بڑھ جائے گا، جس سے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔
اصل حل یہ ہے کہ عوام کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ آمدنی میں اضافے کی پالیسی، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی کے برخلاف ہوتی ہے۔ عام طور پر، مرکزی بینک مہنگائی کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں، لیکن اگر مقصد عوام کی آمدنی میں اضافہ ہو تو شرح سود میں کمی کی جاتی ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آمدنی میں اضافے پر توجہ دے۔ بدقسمتی سے، دو سال پہلے کی گئی ترامیم کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو قانونی طور پر مہنگائی کنٹرول کرنے کو پہلی ترجیح دینا پڑی، جبکہ اس پالیسی سے پاکستان میں مہنگائی قابو میں نہیں آ سکتی۔
اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو ہمیں مہنگائی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے عوام کی آمدنی بڑھانے کی طرف دھیان دینا ہوگا۔ یہی پالیسی مہنگائی کا بھی حل نکالے گی۔ لیکن ہم آئی ایم ایف کی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے ایسی پالیسی پر چل رہے ہیں جو ہماری معیشت کو مسلسل کمزور کر رہی ہے۔